خود کفالت سے خودکشی تک
از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی
۱۵- گاندھی
روڈ، دہرہ دون
دنیا کے دس امیر ترین ارب پتیوں میں سے ۴ کا تعلق ہندوستان سے ہے ملک میں باہری
سرمایہ کی باڑھ آئی ہوئی ہے؛ بیرونی زرمبادلہ
میں اربوں ڈالر اکٹھا ہیں ہماری کمپنیاں اور سرمایہ
دار بیرونی ممالک اور یوروپی کی صنعتیں خرید
رہے ہیں ایک تصویر یہ ہے، اور یہ بھی ایسی
تصویر کا حصہ ہے کہ یہاں کا 70% عوام شدید بیماری کی
حالت میں زندگی گذار رہا ہے۔ تازہ ترین سروے میں کہ
دیہات کے عوام ۸ سے ۱۲ روپے روزانہ پر زندگی گذار رہے ہیں اور
اِن کی تعداد کم از کم کل آبادی کا ٪۲۵ ہے۔ یہاں مہنگائی لگاتار بڑھ رہی
ہے، بجٹ کے بعد سے روزانہ ضرورت کی اہم ترین اشیاء میں
20% کی بڑھوتری ہوئی۔ آٹا، دال، چاول، کھانے کا تیل
سب کا سب روزانہ کے حساب سے مہنگا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ سرکار اور
بین الاقوامی ادارہ حالات بگڑنے، اناج کی بین الاقوامی
پیداوار کم ہونے، گیہوں چاول وغیرہ ضروری چیزوں کی
کمیابی اور کمی پر متنبہ کررہے ہیں۔ بتایا
جارہاہے کہ (۱) آبادی بڑھ رہی ہے (۲) ماحولیات کا بگڑنا اس کے لئے ذمہ دار ہے وغیرہ وغیرہ، مگر
اصل حقائق پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ۱۷۷۰/ سے ۱۸۸۰/ تک جب آبادی آج کی آبادی کا صرف
10% تھی تب صرف بھارت میں ۲۷ بار
اکال (قحط) پڑا ۱۸۵۰/ سے ۱۹۴۷/ تک بیس (۲۰) بار سوکھا پڑا اور بیس لاکھ لوگ بھکمری
کا شکار ہوئے۔ اس بات کو بھی چھپایا جارہاہے کہ ۱۹۴۷/ میں ہمارے یہاں اناج کی
پیداوار سالانہ ۵۰ لاکھ ٹن تھی ۱۹۹۸/ میں ۱۹۸ لاکھ ٹن ہوگئی۔ دنیا بھر میں
گیہوں کا اسٹاک ۱۰۷ ملین میٹرک ٹن ہے جو ۲۰۰۱/ میں ۱۹۷ ملین میٹرک ٹن تھا۔ چاول آج ۷۱ ملین میٹرک ٹن ہے
جبکہ ۲۰۰۱/ میں ۱۳۶ ملین میٹرک ٹن تھا۔ بہت بڑا سوال
پیدا یہ ہوتا ہے کہ پیداوار کم کیوں ہورہی ہے؟ اس میں
کون کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ خوراک کی قلت مصنوعی ہے یا
حقیقی؟ کیا یہ دنیا کی ضرورت کیلئے کافی
نہیں ہے؟ کیا اس قلت پیداوار کے لئے:
(۱) حکومتوں کی زراعت پر کم ترجیح (۲) زراعت میں سرمایہ دارانہ استحصالی ذہنیت کی
کارفرمائی (۳) افسروں کی چوریاں (۴) تاجروں کی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی (۵) زراعت میں غیر ضروری طور پر مشینوں،
مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات کا استعمال (۶) ٹھیکہ پر کاشت Contract forming (۷) کم خوشحال لوگوں کے ذریعہ زیادہ
غریب لوگوں کے مقابلہ پانچ گنا زیادہ اناج کی کھپت (۸) روایتی اناج کی کھیتی
کے بجائے نقد فصلوں کی طرف حکومتوں کی طرف سے پیدا کیاگیا
رجحان (۹) ماحولیاتی آلودگی (۱۰) غذائی اجناس کا بطور ایندھن
استعمال وغیرہ وغیرہ اہم عوامل ہیں جنھیں نظرانداز کرکے
بلکہ جان بوجھ کر چھپاکر صرف آبادی کے سر ٹھیکرا پھوڑنے کی کوشش
کی جارہی ہے۔
ہمارا ملک ہی نہیں دنیا
بھر کی آبادی کا 75% دیہاتوں میں رہتا ہے (عالمی بینک
کے چیف اکنامسٹ فرینکوس) اور ان کی گذر بسر زراعت پر ہی
ہے۔ مگر لگاتار اس آبادی کا حصہ مجموعی قومی پیداوار
میں کم سے کم ہورہا ہے۔ ۸۳-۱۹۸۲/ میں 36.4% تھی اور ۰۷-۲۰۰۶/ میں لگ بھگ آدھی 18.5%
رہ گئی ہے۔ جبکہ خدمات (سروس) اور صنعت کی حصہ داری 39%
اور 19% ہوگئی ہے۔ (۱۹۹۱/) سرکاروں کی ترجیح میں زراعت بہت نیچے چلی گئی
مجبور ہوکر اب عالمی بینک کو بھی کہنا پڑا کہ زراعت پر 4% کل
بجٹ کے مقابلہ زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی زرعی
انڈسٹری پر ٹیکس کم کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ حکومتوں
نے زرعی میدان میں ہرحصہ میں کم خرچ کیا ہاں مصنوعی
کھاد وغیرہ پر سبسڈی دی کیونکہ اس میں بڑے سرمایہ
داروں کا فائدہ ہوتا ہے۔ جبکہ اس کھاد کے استعمال نے اب اپنے برے نتائج دکھانے
شروع کردئیے ہیں۔ فوڈ پالیسی کے صلاح کار دیویندر
شرما کا کہنا ہے کہ آج کی پیداوار سے ہم ۱۲ سلین لوگوں کی ضرورت پوری کرسکتے
ہیں، جبکہ آج آبادی ۶ سلین ہی ہے۔
مگر اس کے لئے ہمیں (۱) سیاسی بحرانوں سے نجات
(۲) مشینی کرن اور کیمیاوی
کھادوں کا استعمال کم کرنا ہوگا (۳) روایتی طریقہ کی
کھیتی کو اپنانا ہوگا تو آج بھی ہم اس سطح سے تین گنا زیادہ
پیداوار کرسکتے ہیں۔
کیمیاوی کھاد کے
نقصانات
آج ہمارے ملک میں اوسطاً ۹۰ کلو کھاد فی ہیکٹر
استعمال کی جاتی ہے، پنجاب اور ہریانہ میں اوسطاً ۱۶۷/کلوگرام فی ہیکٹر ہے،
جبکہ مدھیہ پردیش میں ۴۸ کلو
گرام فی ہیکٹر ہے۔ آج ان کے اندھادھند استعمال سے صحت، ماحولیات،
مٹی کے زرخیزی اور لاگت ہر چیز پر مہلک اثر پڑرہا ہے۔
اندھا دھند استعمال سے زمین شور ہورہی ہے۔ آج ملک میں ۱۳ کروڑ ہیکٹر زمین بنجر
ہوچکی ہے۔ مدھیہ پردیش میں اس کا استعمال زیادہ
نہیں پھر بھی وہاں ۱۹۹۷/ میں ۱۱۴۷ ہزار ہیکٹر زمین بنجر
تھی وہ ۱۹۹۹/ میں بڑھ کر ۱۱۷۵ ہزارہیکٹر ہوگئی۔
کیمیاوی کھاد زیادہ پانی جذب کرتی ہیں
نتیجتاً زیادہ سینچائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
مٹی زیادہ شور ہوتی جاتی ہے اور اس کی زرخیزی
کم ہوجاتی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ۱۹۸۰/ تک گیہوں اور چاول کی پیداوار میں
3.47% اور 3.10% کی بڑھوتری درج کی گئی تھی جو ۱۹۹۶/ کی دہائی میں
2.21% اور .92% کم ہوگئی۔ جبکہ اس عرصہ میں کیمیاوی
کھاد کا استعمال 30% بڑھ گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر کیمیاوی
کھاد پیداوار کی کنجی ہے تو شرح پیداوار اور بڑھنی
چاہئے تھی۔کیمیاوی کھاد سے زمین میں N.P.K. کا تناسب
گڑبڑا گیا ہے اور زنک جیسے ضروری معدنیات کی کمی
آگئی ہے۔ نائٹروجن کی زیادتی مٹی میں
فاسفورس کی بھی کمی کررہی ہے۔ ماہرین بتارہے
ہیں کہ کیمیاوی کھاد کے استعمال کے ذریعہ حاصل کیاگیا
اناج جنینی تبدیلی اور Blue baby جیسی سنگین
بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے۔ پورنا بچوں میں Blue baby بیماری
پیدا ہونے کی اہم وجہ مانا جارہاہے۔ (ڈاکٹر ستیل شرما،
شاہ ٹائمس ۱۵/۹/۲۰۰۷/)
آب پاشی، زراعت کے لئے زندگی
کا سامان ہے۔ مگر اس پر کتنا خرچ کیا جارہا ہے ، اسے اس سے سمجھ لیجئے
کہ ۹-۲۰۰۸/
کے بجٹ میں بارانی زمین
کی ترقی اور ۴ لاکھ ہیکٹر زمین پر سینچائی
کے لئے کل ملاکر ۳۴۸ کروڑ اور ۵۰۰ کروڑ روپیہ خرچ کئے جائیں گے۔
پچھلے پچاس سالوں سے قابل آبپاشی زمین کا 30% حصہ ہی آبپاشی
یوجنا کے تحت لایا گیا ہے۔ پانی 70% بارش کے قدرتی
پانی پر ہی منحصر ہے۔ اس سے یہ صاف عیاں ہے کہ قابل
کاشت زمین کی 30% کو ہی سینچائی کی سہولت
پہنچاکر اگر ہم اپنی ضرورت سے فاضل اناج پیدا کرسکتے ہیں،
توپورے رقبہ کو سینچائی کی سہولت بڑھاکر کتنا اناج پیدا کیا
جاسکتا ہے؟
نقد فصلوں کا جان لیوا لالچ
زراعت کی پالیسیاں
بنانے والوں نے بقول ڈاکٹر دیویندر شرما نقد آمدنی اگانے پر زیادہ
زور دینا شروع کیا۔ اس طرح سبزیوں، پھولوں، پھلوں، جڑی
بوٹیوں کی پیداوار بڑھی ہے اور بڑے کسانوں نے گیہوں،
چاول، دال، تلہن کی بوائی کم کردی ہے۔ پیداوار کم
ہونے سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور ملک اناج میں خود
کفالت کے بجائے غذائی انحصار کی غلامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر دیویندر شرما نے بی. بی. سی کو بتایا
کہ بڑی طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں نے اسی نقد
فصل کے سبز باغ دکھاکر لاطینی امریکہ کو روایتی
فصلوں سے دور کرکے امریکہ، آسٹریلیا کا غلام بنادیا اور یہی
کام تیسری دنیا کے بقیہ ممالک میں کیا جارہا
ہے۔ تاکہ ہم نقد فصل اگاکر ڈالر کمائیں اور ڈالر سے امریکہ آسٹریلیا،
کناڈا، یوکرین سے گیہوں اور امریکہ، تھائی لینڈ
سے انڈونیشیا سے چاول اور انڈونیشیا سے پام آئیل خریدیں۔
مزیدار بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہماری حکومت بڑے زور دار
طریقہ سے توانائی میں خود کفالت اور تیل پیدا کرنے
والے اکثر بیشتر مسلم ممالک کی ”بلیک میل“ سے آزادی
کے لئے امریکہ سے نیوکلیر توانائی کا معاہدہ۱۲۳ کررہی ہے، ویتنام، میانمار
سے تیل اور گیس کے سودے ہورہے ہیں وہیں دوسری طرف
غذائی اجناس پر ایسے مکڑ جال میں پھنس رہی ہے جوکہ سیدھے
سیدھے امریکہ، آسٹریلیا اور کناڈاکی غلامی کی
طرف پہنچاتا ہے۔ ظاہرہے اگر پٹرول کے ذریعہ بلیک میل کیاجاسکتا
ہے تو کیا گیہوں اور چاول اورکھانے کا تیل اس سے زیادہ
موثر بلیک میل کے ذرائع نہیں ہوسکتے۔ یا یہ
کہ گوروں کی غلامی کی عادت ہمیں ابھی گئی نہیں
ہے؟
مہلک غذائی پالیسی
ہمارے ملک میں تقریباً
۵۸۰۰۰ کروڑ روپیہ (تقریباً
اتنی ہی رقم جتنی ملک کے کروڑوں کسانوں سے معاف کی جائے گی)
ملک کی غذائی اجناس، سبزیاں، پھل اور دوسری خوردنی
اشیاء ہر سال اس لئے ضائع ہوجاتی ہیں کیونکہ انہیں
ذخیرہ کرنے کے لئے مناسب تعداد میں گودام، کولڈ اسٹوریج اور پیداوار
کو منڈی تک لے جانے کا مناسب انتظام نہیں ہے۔ یہ بات
متعلقہ وزارت کے وزیر سبودھ کانت سہائے نے ہاؤس میں بتائی۔
ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ وہ عام آدمی کے بہبود کے لئے پابند
ہے دوسری طرف اس کا نوالہ سڑ،گل جانے دیاجاتا ہے۔ ضائع ہونے سے
بچ جانے والی مقدار کا صرف 2% خوراک کو ہی ہم ڈبہ بند یا پروسس Process کرپاتے ہیں،
جبکہ ملیشیا جیسا چھوٹا ملک اپنی 80% خوردنی اشیاء
کو ڈبہ بند کرتا ہے۔ فلپائن، برازیل اور تھائی لینڈ جیسے
چھوٹے ممالک بھی بالترتیب 78% ، 70%، 30% غذائی اشیاء کو
ضائع ہونے سے بچاکر ڈبہ بند کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت ہماری مجموعی پیداوار
کا 5.5% ہوتا ہے اوراس میں ۱۵ لاکھ
لوگ کام کرتے ہیں اگر اس کو فروغ دیا جائے اور کولڈ اسٹوریج و
گودام وغیرہ بڑے پیمانہ پر تعمیر کرائے جائیں تو کسانوں
کو اور چھوٹے صنعت کاروں اور مقامی آبادیوں کو فائدہ ہوگا۔ اب یہ
ساری سہولت مہاجن، آڑھتی اور کمیشن ایجنٹ کے پاس ہے وہ
فصل کے وقت اونے پونے مٹی کے داموں فصل خرید کر گودام بھرلیتا
ہے اور دو روپیہ کلو آلو خرید کر ۱۲ روپیہ کلو بیچتا ہے۔ جب سے ہماری
سرکار نے یہ کاروبار بیرونی سرمایہ داروں کے لئے کھولا ہے
حالات اور بھی خراب ہوگئے ہیں۔ بیرونی امریکی
کمپنی کا رگل نے ہندستانی گیہوں ہندوستان میں خرید
کر اسٹور کرکے ۸ روپیہ کلو والا گیہوں ۱۵ روپیہ کلو بنگلہ دیش
وغیرہ کو بیچا۔ یہاں تک کہ پنجاب، ہریانہ کی
منڈیوں اور خرید کے مراکز پر انھوں نے بھارت سرکار کی ناک میں
دم کردیا۔ FCI کو گندم فروخت کرنے کے بجائے کسان کارگل کو اور دوسری
بڑی کمپنیوں کو گندم فروخت کررہے تھے۔ اور اس برے تجربہ سے ہماری
طاقتور حکومت ابھی سے پھر ڈری ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے
کہ آپ ایک دیو کو قابو میں نہیں کرسکتے تو آپ نے اسے آزاد
کیوں کیا؟ کیا اس لئے کہ وہ صرف غریبوں کا ہی خون
چوسے گا اور نیتا وافسر تو اچھوتے ہی رہیں گے؟
زراعت میں سرکاری لوٹ
اور کرپشن
کسان اور چھوٹے کسان عموماً کم
پڑھے لکھے ہوتے ہیں ان کو ہر سطح پر انتہائی کرپٹ سرکاری مشینری
سے واسطہ پڑتا ہے اور جب نیتا اور افسر مل جاتے ہیں تو کسان کی
بیچارگی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ قانون گو، پٹواری،
آب پاشی محکمہ کے عملدار، تحصیل کے عملدار، بینکوں کا عملہ، خرید
مراکز کے کرپشن، ادھار لینے میں کرپشن غرضیکہ پوری کتاب
چاٹیے اس کینسر کے اثرات کو سمجھنے سمجھانے کے لئے چھوٹا سا نمونہ پیش
ہے:
غذائی اجناس کی تقسیم
میں لوٹ اور کرپشن
منصوبہ بندی کمیشن کے
مطابق رعایتی داموں پر مہیا کرائی جانے والی رعایتی
داموں پر مہیا کرائی جانے والی غذائی اجناس کا 50% سے 80%
غلط لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ پچھلے تین سالوں میں
ہمارے ملک میں ۳۱۵۰۰ کروڑ روپیہ کا رعایتی
اناج جو کہ رعایتی نرخ والی سرکاری دوکانوں کے ذریعہ
تقسیم ہونا تھا غیرقانونی طریقہ سے بازار میں بیچ
دیاگیا۔ (گندم 53.3% اور 39%) صرف U.P. میں ۰۷-۲۰۰۶/
میں ۳۲۸۹ کروڑ روپیہ کا گندم خرد بُرد کیاگیاNc.A.C.R. اور Org- Marg کے سروے میں
بتایاگیا کہ سب سے غریب ۲۲-۲۵ کروڑ عوام کے لئے مخصوص رعایتی اناج کی سہولت غیرقانونی
طریقہ سے تقریباً اس کا 40% ہڑپ لیا جاتا ہے۔ آندھرا پردیش
میں بہت مشہور چاول گھوٹالہ نیتاؤں اور افسروں نے کیا تھا جس میں
ہزاروں ٹن غریبوں کا چاول ان تک پہنچنے کے بجائے دوبارہ حکومت کو ہی
مارکیٹ قیمت پر فروخت کردیاگیا تھا۔ (ٹائمس آف انڈیا
۱۸/۹/۲۰۰۷/)
غذائی اجناس کے استعمال میں
مشرق و مغرب کا فرق
شمالی امریکی
ممالک میں سالانہ ایک آدمی کی اناج کی کھپت ۹۹۰ کلو گرام، یورپ میں ۵۵۰ کلو گرام اور برصغیر ہند
وپاک میں ۱۹۸کلو گرام ہے۔ ڈاکٹر دیویندر
شرما کا کہنا ہے کہ اگر ایشیا کا مڈل کلاس بھی امریکہ اور
یوروپ کی طرح غذائی اجناس استعمال کرنے لگے تو کیا حشر
ہوگا؟ انسان تو انسان امریکہ کی گائے بھی اس معاملہ میں
بہت آگے ہے۔ اوسط ہندوستانی کسان 1.4 ہیکٹر زمین میں
زندگی گذارتا ہے، جبکہ یوروپ اور امریکہ میں ایک
گائے کیلئے چارہ اگانے کیلئے کسان کے پاس اوسطاً دس ہیکٹر زمین
مہیا ہے۔ مغربی تہذیب کے صارف کلچر Consumerism کی
وجہ سے دنیا میں پائے جانے والے بڑے مسائل کی جڑ میں ہی
مغربی کلچر ہے کہ ”خوب کماؤ موج اڑاؤ“ نتیجتاً جہاں یہ لوگ دنیا
میں اناج، بجلی، پانی ، پٹرول، دودھ کا دنیا میں سب
سے زیادہ استعمال کرتے ہیں اس کے نتیجہ میں زہریلی
گیس اور ماحول کو گرم کرنے والی گیس اور زہریلے مادہ خارج
ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے زیرزمین پانی، سمندر
کا پانی، ہوا، ماحول، فضا، گلیشیر، فضائی درجہ حرارت سب
ہرطرح متاثرہوتا ہے اس کے نتیجہ میں سیلاب، سوکھا، فصلوں کی
نئی نئی بیماریاں بدلا ہوا بڑھا درجہ حرارت فصلوں کو چوپٹ
کررہا ہے، مگر مغربی تہذیب اور ان کے ایشیائی ترقی
پذیر ایجنٹ کڑوے کسیلے پھل دیکھ کر بھی صارف کلچر
کو بڑھاوا دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ امریکہ نے قانون
بنایا ہے کہ مکا سے بنا Ethanol گاڑیوں کے ایندھن کے لئے 15 ارب گیلن
کی مقدار میں ۲۰۱۵ تک تیار کیا جائے گا۔ اس کے لئے ۱۶۳ ملین میٹرک ٹن مکا Corn درکار ہوگا۔
بازار میں اپنی پکڑ بنانے کے لئے ان تمام یوروپی ملکوں
اور امریکہ، آسٹریلیا نے کسانوں کو سبسڈی کا کھیل
شروع کررکھا ہے۔ امریکی زرعی شعبہ ہر سال ۹۵ ارب ڈالر کی سبسڈی لیتا
ہے۔ وہاں کا کسان 1.2 ارب ڈالر کا چاول پیداکرتا ہے اس پر اس کو 1.4
ارب ڈالر سرکار بطور سبسڈی دیتی ہے۔ ایسے میں
غریب ملک کا کسان ان کا مقابلہ کہاں کرسکتا ہے۔ ترقی یافتہ
۲۵ ملکوں کی تنظیم O.E.C.D اپنے کسانوں کو ۳۴۰ ارب ڈالر کی سبسڈی دیتی
ہے۔ اس کی وجہ سے غریب ممالک کے کسان کے لئے کھیتی
بے فائدہ ہوجاتی ہے وہ مزدوری کرتا ہے نقد فصل اگاتا ہے اور خودکشی
کرتا ہے۔ ایک سال میں صرف چھتیس گڑھ میں ۱۴۰۰ کسانوں نے خودکشی کی۔
مہاراشٹر میں ۷-۶ سالوں میں خودکشی
کرنے والے کسانوں کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔
”کسانوں کو ۶۰۰۰۰ کروڑ کی قرض معافی پر
ہنگامہ مچانے والے سرمایہ دار اور ان کا پریس یہ نہیں
بتاتا کہ بڑے کاروباری گھرانوں کے اربوں روپیہ کے قرض معاف ہوجاتے ہیں۔
سرکاری بینکوں کے ۹۰ ہزار
کروڑ روپیہ بڑے کاروباری گھرانوں کے قرض کی شکل میں ڈوب
چکے ہیں۔ ان بڑے گھرانوں کو کارپوریٹ ٹیکس ، انکم ٹیکس،
ایکسائز ڈیوٹی میں رعایتوں کے ذریعہ مرکزی
سرکار کو سال ۰۷-۲۰۰۶/
میں ۲۳۹۷۱۲ کروڑ روپیہ اور سال ۰۸-۲۰۰۷/
میں ۲۷۸۶۴۴ کروڑ روپیہ گنوانے پڑے۔
سرکار جتنا ٹیکس وصول کرتی ہے اس کا تقریباً آدھا گنوادیتی
ہے۔ مگر اس پر ہمارا پریس بھی ہنگامہ نہیں کرتا اور نہ
ماہرین کرتے ہیں۔ سرکار کا کل ۹۹۲۹۳ کروڑ روپیہ ٹیکس بقایا
ہے جو وصول نہیں کیا جارہا ہے۔ سرکار نے ترقی کی مد
میں کل ۲۴۳۳۸۶ کروڑ روپیہ رکھے ہیں
اس میں تقریباً آدھا دفاع کے لئے ۱۰۵۶۰۰ کروڑ روپیہ ہے۔ باقی
میں قرضہ کی ادائیگی، سرکاری ملازمین کا
خرچہ، سبسڈی، پنشن سب شامل ہے۔UPA سرکار نے تعلیم، صحت،
زراعت اور دیہی ترقی کے لئے پیسہ کی کمی
کارونا رویا مگر اپنے پانچ بجٹ میں پہلے بجٹ ۶۰۰۶۰ کروڑ سے بڑھا کر ۱۰۵۶۰۰ کروڑ روپیہ کردیا۔
چار سالوں میں دفاعی بجٹ میں 76% کی ترقی ہوئی۔
بجٹ کا 46%ہتھیاروں کی خریداری کے لئے ہے۔ UPA سرکار نے
پانچ سالوں میں صرف ہتھیاروں کی خرید پر (پورے دفاع پر نہیں)
زراعت کے بجٹ کا چھ گنا، صحت کا چار گنا اور تعلیم کے ڈیڑھ گنا سے زیادہ
خرچ کیا ہے۔ صاف ہے کہ UPA سرکار کے لئے زراعت، صحت، تعلیم
سے بڑھ کر ہتھیاروں کی خریداری ہے۔ کیا ہتھیاروں
کے لئے یہ دلچسپی سودوں میں ملنے والی دلالی کے
باعث تھی یا باجپئی سرکار سے زیادہ اپنے آپ کو دیش
بھگت ثابت کرنے کے لئے۔ وجہ چاہے جو بھی ہو ہتھیاروں سے عشق کی
قیمت صحت، تعلیم اور زراعت کو چکانی پڑی ہے۔“ (آخری
سمے (وقت) میں ”گنگا نہان“ - آنند پردھان، جن ستّا، ۱۲/۳/۲۰۰۸/)
جو حکومت ۷-۸ ارب روپیہ کی لاگت سے صرف ۳ V.V.I.P جہاز، تقریباً
۹۰ ارب روپیہ کی لاگت سے
۱۲ سال سے بیکار پڑے روسی
جہاز، چالیس سال پرانے امریکی طیارہ بردار جہاز کو خرید
رہی ہے اسے اپنے لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لئے سستے اور قابل حصول داموں
پر بنیادی غذائی ضرورت گندم، چاول، تیل، دالیں مہیا
کرانے میں پریشانی کیوں ہے؟ اربوں ڈالر ہم امریکہ،
اسرائیل اور روس کے خزانہ میں کیوں بھر رہے ہیں؟ ملک ہمیشہ
ہتھیاروں سے ہی نہیں مضبوط ہوتا اس کے لئے خوشحالی، مضبوط
عوام ہی آخری امید ہوتے ہیں۔ ویتنام،
افغانستان اور خود ہمارے ملک کا تجربہ یہی بتاتا ہے۔ اگر عوام
ساتھ نہ ہوں تو ہتھیار کیا کریں گے؟
بزرگ صحافی کلدیپ نیرّ
کہتے ہیں ”ترقی کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس کا فائدہ امیر
غریب کو یکساں پہنچے۔ منموہن سنگھ کا پیش کردہ متبادل کوئی
متبادل نہیں ہے یہ کھلا استحصال ہے۔“ (راشٹریہ سہارا)
***
____________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره : 6 ، جلد : 92 جمادی
الثانی 1429ھ مطابق جون 2008ء